Carousel

Breaking News

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 13


جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 13


/
/
/
/

میاں نواز شریف نے اپنی حکومت پر 12 اکتوبر کے شب خون، شدید انتقامی کارروائیوں، کردار کشی کی سرکاری مہم اور پھر طیارہ ہائی جیکنگ کے جھوٹے مقدمہ میں عمر قید کی سزا سننے کے باوجود کارگل کے مسئلہ پر اپنے لب سی لئے تھے۔ وہ تمام تر ظلم و زیادتی کے حوصلے اور صبرسے مقابلہ کرتے ہے۔ 9 جون کو ایک سوال کے جواب میں اٹک میں انہوں نے صرف یہ کہا تھا ’’کارگل پر ناکام مہم جوئی کے باعث آج پرویز مشرف کو بھارتی حکمرانوں سے مذاکرات کی درخواستیں کرنا پڑرہی ہیں۔‘‘

super offer Beauty products
اگلے ہی روز حکومتی ترجمان نے ایک شرمناک اور لغو تفصیلی بیان جاری کیا جس میں نہ صرف یہ کہ کارگل میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری نواز شریف کے کندھوں پر ڈال دی بلکہ صدر کلنٹن سے ملاقات کو نواز شریف کی قلابازی قرار دیا، ان پر غداری اور واجپائی سے دوستی کے شرانگیز الزامات عائد کئے۔ اعلان لاہور کی مخالفت کی، میاں صاحب پر شہداء کے لہو سے بے وفائی کے جھوٹے اور بیہودہ الزامات لگائے۔ 12 جون کو سرکاری ترجمان کے کلی طور پر شرمناک، بے بنیاد اور حقائق کے منافی اس بیان کے جواب میں میاں نواز شریف کو بعض حقائق سے پردہ اٹھانا پڑا۔ اس دن سے لے کر آج تک پرویز مشرف اور اس کے پروپیگنڈہ ماہرین جھوٹ بولتے چلے آرہے ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولنے کی تمام سرحدیں پار کرلی ہیں۔ اسی لئے مجھے آج چند اہم باتوں پر ، اہم نکات پر واضح گفتگو کرنا پڑی۔

میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ کارگل اور دراس سیکٹرز میں معرکہ کارگل کے دوران شہید یا معذور ہونے والے قوم کے سپوتوں کی عظیم قربانی کو سلام کرتی ہے، کارگل کے شہداء اور غازی وطن عزیز کے مایہ ناز فرزند ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض کی بجا ااوری اور مادر وطن کے دفاع کے لئے اپنی جانوں اور جسموں کا نذرانہ پیش کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جناب نواز شریف (معرکہ کارگل پر اعتماد میں نہ لئے جانے کے باوجود) بطور وزیراعظم لائن آف کنٹرول کے دوروں پر بھی گئے اور شہداء اور غازیوں کو اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا۔


کارگل پر پرویز مشرف اور ان کے چند ساتھیوں کی ناقص منصوبہ بندی اور غلط فیصلوں کی سزا کسی طور پر بھی شہیدوں اور غازیوں کو نہیں دی جاسکتی تھی۔ میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات سے مجاہدین یا پاک فوج کے شہداء کی توہین کے پہلے اخذ کرنے کی بے بنیاد سرکاری کوشش بجائے خود شہداء کی توہین کے مترادف ہے۔ میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کی مشاورت سے صدر کلنٹن سے رابطہ قائم کیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکہ روانگی سے چند لمحے قبل ائیرپورٹ پر بھی وزیراعظم نے پرویز مشرف سے اہم صلاح مشورے کیے۔یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے فوجی یونٹس میں جاجاکر یہ بیانات دئیے کہ وزیراعظم کا امریکہ جانا قومی مفاد کے عین مطابق ہے۔ چند اہم فوجی چوکیوں کے ہاتھ سے نکل جانے اور بعدازاں ایک باقاعدہ جنگ یس قوم کو بچانے کے لئے وزیراعظم نے یہ تدابیر اختیار کیں کیونکہ سیاسی اور عسکری قیادت سے مشاورت کے بغیر از خود پرویز مشرف اور چند افراد کی کارگل پر ناقص منصوبہ بندی نے پاکستان کو بیچ منجدھار لاکھڑا کیا تھا۔ اگر جنگ بندی نہ ہوتی تو پاکستان کے بدخواہ اور اسلام کے دشمن اکٹھے ہوکر ہمیں دنیا میں تنہا کرکے ایٹمی دھماکوں کا سبق سکھانے کیلئے تیار کھڑے تھے۔

میاں نواز شریف نے ملک، قوم اور افواج کے وسیع تر مفاد میں اپنی ذاتی مقبولیت کو داؤ پر لگاکر سب کو بچالیا۔ اگر نواز شریف کا امن کا راستہ غلط تھا تو آج معرکہ کارگل کے ڈیزائنر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل کیلئے امن اور مذاکرات کا راستہ کس بنیاد پر اختیار کررہے ہیں؟ انہیں بھارت کے خلاف طاقت کے استعمال سے کس نے روکا ہے؟ پرویز مشرف! وضاحت کرو کہ کارگل کی لڑائی نے قوم کو کیا دیا؟ مسئلہ کشمیر پر پیشرفت کیوں رک گئی؟ پاکستان پوری دنیا میں تنہا ہوا۔ قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی۔
قومی مفادات کا سودا نواز شریف نے نہیں پرویز مشرف نے کیا ہے۔ نواز شریف نے تو صرف اور صرف وسیع تر قومی مفاد میں کارگل مہم کے دوران ان کی غلطیاں اپنے سرلیں۔ قوم کا سامنا بھی کیا اور تن تنہا دنیا کی بین الاقوامی برادری کا سامنا بھی کیا۔ مگر تم نے کیا کیا؟ تم نے فقط اپنا عہدہ بچانے کیلئے سارے جمہوری نظام کو تہ و بالا کر ڈالا۔ جمہوری حکومت کے خاتمہ کیلئے پہلے امن کے عمل کو سبوتاژ کیا اور اب قومی غیرت کے منافی اقدام کرتے ہوئے مغرب زدہ خواتین کے ذریعہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمہ کیلئے ایڑیاں رگڑتے ہو۔ فراڈ ہم نے نہیں کیا، فراڈ وہ ہے جو تم اصلاح احوال کے نام پر ملک و قوم اور مسلح افواج سے کررہے ہو۔ افواج پاکستان اور عوام کے مابین نفرت اور تلخیوں کے بیج بورہے ہو۔

ایک پیغام مجھے آج بھارتی حکمرانوں کو بھی دینا ہے۔ وزیراعظم واجپائی سن لو! پاکستان کو اندرونی عدم استحکام کا شکار دیکھ کر، پاکستان میں ایک کمزور غیر آئینی حکومت پاکر ہمارے پیارے وطن پر جارحیت مسلط کرنے کی جرأت نہ کرنا۔ اگر تم نے یہ ناپاک جسارت کرنے کی کوشش کی تو اٹھارہ کروڑ پاکستانی اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر تمہارے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کمی بھارتی مظالم کے خلاف ہماری قومی وحدت کونقصان نہیں پہنچاسکتی۔ قوم نواز شریف کی قیادت میں کسی بھی بیرونی جارحیت کے مقابلہ کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ یہ رسم اب ختم ہونی چاہیے، ایسے تمام راز، جن سے فراد واحد کی نالائقیوں اور نااہلیوں کا پتہ چلتا ہو، قوم کو بتادینے چاہئیں اور یہ آئندہ آنے والے حکمرانوں کا وطیرہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی شخص کی نالائقی کو چھپانے کے لئے راز نہ بنائے۔ ذاتی مفادات کے لئے ملک کو نقصان پہنچانے کی پالیسی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہر روز قوم کو نہیں بتایا جائے گا۔ آصف نواز نے 16مجرموں کو چھڑوایا۔ قوم کو اسی وقت خبر ہوجاتی تو مجرم چھوٹ نہ پاتے اور آصف نواز نے جو فائدہ اٹھایا، نہ اٹھاپاتے۔ پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے! جن کو آئین توڑنے کی سزا ملنی چاہیے وہ حکمرانی کررہے ہیں اور جو محب وطن اور ملک کی خدمت کرنے والے ہیں ان کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف حلف توڑ کر، آئین توڑ کر چیف ایگزیکٹو بن گیا ہے۔ نواز شریف نے حقیقت بیان کی تو اس پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں۔ بس کسی طرح پرویز مشرف کی زخمی انا کی تسکین ہونی چاہیے، غداری کے مقدمے بناؤ اور نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگاؤ، پرویز مشریف کو اس کے ہر غلیظ اقدام پر فاتح پاکستان تسلیم کرو اور واہ واہ کرو۔ میں نے ان کی ہتھکڑیاں لگی زخمی کلائیوں پر پٹی کرتے ہوئے سوچا کہ پرویز مشرف! اپنے جن جرائم پر پردہ ڈالنے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے تم نے ان ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اڈالی ہیں، انشاء اللہ تم کبھی ان ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکو گے، انشاء اللہ تم مسئلہ کشمیر کو حل ہونے سے روک سکو گے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان سیکولر اسٹیٹ بنے گا۔ (بیگم کلثوم کا خطاب: 18 جون، 2000ء)
(جاری ہے)


ليست هناك تعليقات