Carousel

Breaking News

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... پانچویں قسط

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... پانچویں قسط


انہی ایام اسیری میں میرے والد کا چالیسواں تھا۔ آخر وقت تک فوجیوں کی کوشش رہی کہ میں چالیسویں میں شرکت نہ کرسکوں۔ چالیسویں کے روز میں گاڑی میں بیٹھ کر گیٹ پر پہنچی، لیکن فوجیوں نے نہ تو گیٹ کھولا اور نہ ہی کوئی میری بات سن رہا تھا۔ آخر مجبور ہوکر میں نے ان سے کہا:
”اگر تم گاڑی کے لئے گیٹ نہیں کھولنا چاہتے تو نہ کھولو، میں پیدل ہی چلی جاﺅں گی اور تم میرے پیچھے سے گولیاں چلانا چاہو تو چلادینا۔ جب تک دم میں دم ہے یہ قدم نہیں رکیں گے۔“ یہ کہہ کر میں پیدل چل پڑی۔
اندرونی گیٹ سے نہر تک تقریباً ایک کلومیٹر فاصلہ پیدل طے کیا۔ جب میں نہر پر پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ میری گاڑی آگئی۔ ان فوجیوں نے یقیناً اپنے اعلیٰ حکام کو میرے اس اقدام کی خبر دی ہوگی۔ اگر اس روز میں رائیونڈ فارم سے گارڈن ٹاﺅن تک (والد کی رہائش گاہ) تقریباً 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیتی تو راستے میں آنے والی آبادیوں کا ایک بڑا ہجوم میرے ساتھ ہوجاتا۔ فوجی افسروں نے میرے اس اقدام کے نتائج کا اندازہ کرلیا تھا اور پھر مجھے گاڑی کے ذریعہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئی تو میری گاڑی کے آگے اور پیچھے پانچ پانچ فوجی گاڑیاں تھیں۔ میں اپنی والدہ کے گھر پہنچی تو میری گاڑی کے آگے اور پیچھے پانچ پانچ فوجی گاڑیاں تھیں۔ میں اپنی والدہ کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ وہاں گھر والوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ بہت سے لوگ آئے تھے، لیکن میرے وہاں پہنچنے سے پہلے سب کو نکال دیا گیا اور بعض خواتین کو تو اتنی بدتمیزی سے نکالا گیا کہ ان کے ہاتھوں سے سپارے تک چھین لئے گئے اور باقاعدہ دھکے دے کر باہر نکالا گیا۔ جاتے وقت مجھ سے کہا گیا کہ آپ صرف دو تین گھنٹے وہاں رہ سکتی ہیں مگر پندرہ منٹ کے بعد ہی مجھ سے کہا گیا” بس اب واپس چلیں، لہٰذا مجبورہوکر مجھے واپس آنا پڑا“
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات کا نقشہ ترتیب پارہا تھا۔ غم کی راہیں ازخود متعین ہورہی تھیں۔ ہاتھ میں اٹھے ہوئے قلم نے قرطاس پر چلنا شروع کیا تو اس پر ابھرنے والی تحریر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام خط کی صورت اختیار کرگئی۔
لیکن مشکل یہ تھی کہ یہاں سے کوئی چیز باہر نہیں جاسکتی تھی تاہم کسی نہ کسی طریقے سے یہ خط اس زندان خانہ (رہائش گاہ) سے باہر پہنچا اور چیف جسٹس کو ارسال کردیا گیا۔ ایک ایک کرکے دن گزرتے گئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔ پھر میں نے ایک اور خط لکھا جسے چیف جسٹس کو ارسال کرنے کے علاوہ اس کی کاپیاں اخبارات کو بھی بھجوادی گئیں۔ ان خطوط میں میں نے اپنی روداد لکھی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا ” میں نے اس سے پہلے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا اور یہ کہ میں عدالت کے طریقہ کار اور آداب واجبی سے واقف نہیں ہوں۔ میرے گھر سے نکلنے پر پابندی ہے اس لئے ان حالات میں میرے اس خط کو کورٹ پٹیشن سمجھا جائے“
عدالت نے اس خط کا جواب دیا اور دس دن بعد کی تاریخ پڑی۔ اس کے بعد 17 دن کی تاریخ پڑی۔ پھر ایک دن بریگیڈیئر یوسف آئے اور انہوں نے کہا کہ کل سے آپ آزاد ہیں، ہم نے خواتین پر سے پابندی اٹھالی ہے۔ گویا پابندی اٹھالی گئی تھی مگر باہر سے کسی کو اندر نہیں آنے دیا جارہا تھا حتیٰ کہ جو ملازم سودا سلف لینے جاتے انہیں بھی گھنٹوں باہر روکتے اور پوچھ گچھ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ سودا وغیرہ لینے کے لئے جو ملازمین باہر جاتے فوجی ان کے ساتھ جاتے اور وہ اسے پابند کرتے کہ سودے کے سوا کوئی اور بات نہیں کی جائے گی۔
پھر میں جب کہیں باہر جاتی تو فوجی گاڑیاں میرے پیچھے ہوا کرتیں۔ خاص طور پر دو جیپوں اور ایک سفید رنگ کی گاڑی میں سوار یہ افراد رائیونڈ میں بھی ہماری نگرانی کیا کرتے اور سائے کی طرح میرے ساتھ رہتے۔ میں جہاں بھی جاتی، جن لوگوں سے ملتی ان کی شامت آجاتی، انہیں پریشان کیا جاتا کہ وہ ہمیں کب سے جانتے ہیں، کیا رشتہ داری ہے؟ اور ایسے ایسے سوال کرتے جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنا آنا جانا صرف والدہ کے گھر تک محدود کردیا۔ بچوں کے بھی باہر جانے پر پابندی تھی۔ ان حالات کے پیش نظر میں نے تمام وقت رائیونڈ فارم میں گزارنا شروع کردیا۔ ان سب پریشانیوں اور پابندیوں کے باوجود میں شکر کرتی ہوں کہ میں یہاں آگئی تھی۔ میرے ساس اور سسر مجھے اپنے درمیان دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔
ایک دن شام کو ٹی وی دیکھتے ہوئے چھوٹے بچوں نے شور مچادیا کہ ابو (نواز شریف) کی تصویر آرہی ہے۔ میں جلدی سے ٹی وی لاﺅنج میں گئی۔ یہ وہ دن تھا جب نواز شریف صاحب کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ان کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی، وہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ شاید شناسا چہرے تلاش کررہے تھے اور یہ جائزہ لے رہے تھے کہ وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے شاید ایک فوجی اہلکار کو دیکھا او راسے پوچھا تھا کہ کدھر جانا ہے۔
اس دن میں عدالت میں نہ جاسکی کیونکہ اس وقت تک ہمیں اخبار کی اجازت نہیں ملی تھی اور ہمیں یہ علم نہیں ہوسکا تھا کہ آج انہیں عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔ بہرحال کچھ اپنے دوست اور خیر خواہ وہاں موجود تھے۔ پھر ہم نے فوری طور پر کراچی جانے کی تیاری شروع کردی۔ اس دوران ایک سرکردہ مسلم لیگی لیڈر کا فون آیا کہ آپ کراچی نہ جائیں کیونکہ یہ آپ کی خاندانی روایات کے منافی ہوگا۔ شاید ان کے مشورے میں اس چیز کا عمل دخل ہوکہ کچھ لوگ ہمارے رہن سہن سے زیادہ واقف نہیں ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔(جاری ہے)

ليست هناك تعليقات