Carousel

Breaking News

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... دوسری قسط

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی،خود انکی اپنی زبانی ... دوسری قسط



جس دستے نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اس کے جوان اس قدر بھوک سے نڈھال ہورہے تھے کہ انہوں نے سب سے پہلے گھر کے تمام فریج کھولے، جو کچھ ملا کھالیا، بچوں کا دودھ تک پی لیا اور بعض لوگوں نے کچھ انڈے بھی توڑ کر پی لئے۔ جب ہم نے کہا کہ یہ کیا تماشا ہے تو ایک سادہ دل فوجی نے کہا’’ ہمیں اس چیز کا افسوس ہے کہ ہم آپ کے گھر کی چیزیں کھاگئے ہیں‘‘ مگر اس نے کہا ’’باجی! ہم صبح ناشتے کے بعد پریڈ گراؤنڈ میں سٹینڈ ٹو تھے اور وہیں سے ہم یہاں تک آگئے۔ ایمرجنسی کی صورت میں ہم دوپہر کا کھانا نہیں کھاسکے‘‘ جو ملازم بچے رہائش گاہ کے پچھلے حصے میں ہمارے ساتھ موجود تھے، انہیں میں نے اپنے ساتھ ہی روک لیا اور دروازوں کو کنڈیاں لگوادیں جس پر فوجیوں نے رہائش گاہ کے اس حصے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان میں سے ایک آفیسر نے بلند آواز میں حکم جاری کیا:
’’کوئی شخص اندر سے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘

ہم اپنے ہی گھر میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ اپنا گھر جہاں سکون اور عافیت کا احساس ملتا ہے، ہمارے لئے زندان میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک ایسی قید جس کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی، مجھے اپنے سے زیادہ اپنی والدہ کی فکر لاحق تھی جو سخت علیل تھیں۔ میرے والد کی وفات کو ایک ماہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ان کی وفات اور بیماری نے میری والدہ کو پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔ اوپر سے اس قیامت صغریٰ سے دوچار ہونا پڑگیا اور اس صدمے سے ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑگئی۔
میری علیل والدہ اور چھوٹی بیٹی اسماء کے علاوہ میری بڑی بہن بھی میرے ساتھ محبوس ہوکررہ گئیں۔ 
ہم مختلف ٹی وی سٹیشن لگا کر باہر کا حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا اور میری والدہ کی طبیعت تیزی سے بگڑرہی تھی۔ ان کی تشویشناک حالت کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیا کہ والدہ کو صبح ہوتے ہی بڑی بہن کے گھر شفٹ کوردوں گی جو ڈاکٹر ہیں اور ان کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔چنانچہ 13 اکتوبر 1999ء کی صبح میں عقبی رہائش گاہ کے حصے سے باہر آئی اور فوجیوں سے کہا کہ اپنے آفیسر کو بلاؤ جس پر وہ ایک خود سر میجر کو بلا کر لائے، میں نے اس سر پھرے میجر کو اپنے گھر کے تمام حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی مرد نہیں ہے اور میری والدہ سخت علیل ہیں اس لئے میری والدہ اور میری ہمشیرہ کو آپ ان کے اپنے گھر جانے دیں لیکن اس نے ڈھٹائی کے ساتھ انکار کردیا، اس نے بڑی رعونت سے کہا ’’میں انہیں نہیں جانے دوں گا۔‘‘اس کے رویہ سے ظاہر ہوگیا تھا کہ اس سے مزید کوئی بات کرنا بے کار ہے۔ چنانچہ اس لمحے میں نے ایک فیصلہ کیا، جسے شاید ماں کی محبت سے مغلوب ہوکر جذباتی فیصلے کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر میجر سے کہا:
’’نہ صرف یہ (امی اور بڑی بہن) جائیں گی، بلکہ میں بھی جاؤں گی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی نہیں رہ سکتی، میں اپنے ساس اور سسر (میاں محمد شریف صاحب) کے پاس رائیونڈ جاؤں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں۔‘‘
میجر نے کہا’’ آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘
میں نے میجر سے کہا’’ تم روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کرلو‘‘ مجھے یقین تھا کہ ایک طرف تو میجر حکم کا پابند ہے ،وہ بھی کسی ماں کا بیٹا ہے، اس کے گھر میں بھی بہنیں ہیں اور اس کی بھی تربیت کسی اچھی گود نے کی ہوگی۔ حالات جیسے ہی کیوں نہ ہوں، یہ میجر آخر مسلمان ہے اور اس کے دل میں ہمارے لئے کچھ رحم ضرور ہوگا اور دوسری طرف میں نے یہ ار ادہ کرلیا تھا کہ اگر یزید کے دربار میں وہ جنت کی مالک پاک ہستیاں بے آسرا ہوکر آواز حق بلند کرسکتی ہیں تو آج کیوں نہ ہم ان کی سنت کو زندہ کرلیں۔ جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگا ہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔
میں نے اپنے اور بیٹی کے کپڑے اور چند ضروری چیزیں گاڑی میں رکھوائیں اور دو ملازموں کے ساتھ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جبکہ میری بڑی بہن والدہ کے ساتھ پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پھر میں نے میجر سے کہا ’’میں جارہی ہوں‘‘ گاڑی چل پڑی اور میجر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اسے گیٹ بند کرانے کی جرأت نہ ہوئی۔ پھر ہم ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے نکل آئے اور بڑی بہن والدہ کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں اور میں رائیونڈ فارم پہنچ گئی۔(جاری ہے )

ليست هناك تعليقات